محاورہ ، کہاوت اور ضرب المثل کی تعریف
روز مرہ محاورات کہاوتیں اور ضرب الامثال و حکم کی اہمیت ادب میں اظہر من الشمس (واضح) ہے۔ ان سے کسی قوم کی بنیادی ذہنیت اور اس کی ثقافت فکری کا پتہ چلتا ہے۔ اس بات کو مدنظر رکھ کر ہم نے ایک عدیم المثال ذخیرہ جمع کر کے آپ کی جھولی میں ڈال دیا ہے۔ سالہا سال سے فروخت ہونے والی یہ کتاب اپنی مثال آپ ہے۔ اردو ادب میں روز مرہ ضرب الامثال، محاورات اور کہاوتوں کا بکثرت استعمال ہوتا ہے۔ اگر ان کے صحیح اور واضح پس منظر اور معانی کا درست علم نہ ہو تو آدمی صحیح مفہوم سے بہت دور بھٹک جاتا ہے۔ مندرجہ بالا تینوں ادبی اصطلاحات کی وضاحت کچھ یوں کی جائے گی
ضرب المثل ( کہاوت)
علمائے عمرانیات کسی ملک کی کہاوتوں ( ضرب الامثال) کو بہت اہمیت دیتے ہیں کیونکہ کہاوتیں قدیم سماجی فکر معاشرتی روابط اور کسی سماج میں رہنے والے اشخاص کے سماجی اقدار کی مظہر ہوتی ہیں لہذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ کہاوت کی بنیاد مسلمہ تمثیل یا تلیح ہوا کرتی ہے اسے ضرب المثل کہتے ہیں۔ یا گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں۔ مرتے کو ماریں شاہ مدار ۔ وغیرہ وغیرہ
محاوره
محاورہ کا اطلاق خاص کر ان افعال پر ہوتا ہے جو کسی اسم کے ساتھ مل کر اپنے حقیقی معنوں کی بجائے مجازی معنوں میں استعمال ہوتے ہیں جیسے اتارنا کے حقیقی معنی کسی شے کو اوپر سے نیچے لانے کے ہیں۔ مثلاً بچے کو سائیکل سے نیچے اتارنا جہاز سے مسافروں کو اتارنا وغیرہ۔ ان میں سے کسی کو محاورہ قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ ان میں اتارنا حقیقی معنوں میں استعمال ہوتا ہے لیکن شیشے میں اتارنا اور دل سے اتارنا محاورات ہیں کیونکہ یہاں اتارنا مجازی معنوں میں استعمال ہوا ہے۔
روز مرہ
روز مرہ دو یا دو سے زیادہ الفاظ کا مرکب ہوتا ہے۔ جسے اہل زباں استعمال کرتے ہیں جبکہ اس کے خلاف استعمال غلط سمجھا جاتا ہے۔ مثلاً ”بلا ناغہ“ ایک روز مرہ ہے جبکہ ” بے نانہ کہیں تو خلاف روزمرہ ہے۔ لہذا غلط تصور ہوگا۔
روزمرہ – خلاف روزمرہ ,انیس بیس کا فرق – بیس اکیس کا فرق، بلا ناغہ – بے ناغہ، آئے دن – آئے روز، پان سات – پان آٹھ
آخر میں میں جناب اظہر ثقلین بھٹی صاحب کا ممنون ہوں جنہوں نے مجھے اس کتاب کی گزشتہ اشاعت میں رہ جانے والی کتابت کی غلطیوں کی تصحیح کا کام سونپا۔ لہذا میں نے بھی احسن طریقے سے کام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ہر کام حرف آخر نہیں ہوا کرتا۔ اپنی مخلص آراء سے ضرور آگاہ کرتے رہیے گا۔ امید ہے کہ ہماری یہ کوشش اہل علم و ادب کے نزدیک بے حد قدر و قیمت حاصل کرے گی ۔ (انشاء اللہ )
ڈاکٹر صلاح الدین
محمد ثقلین بھٹی
فوزیہ اظہر بھٹی